Jidhar se guzro dhuaan bichha do


Jidhar se guzro dhuaan bichha do,
Jahaan bhi pahucho dhamaal kar do.

Tumhe siyasat ne haq diya hai, 
Hari zameeno ko laal kar do. 

Apeel bhi tum, daleel bhi tum, 
Gawaah bhi tum, waqeel bhi tum. 

Jise bhi chaho haraam keh do, 
Jise bhi chaho halaal kar do.

‏زندگی کیوں نہ تجھے وجد میں لاؤں واپس


‏زندگی کیوں نہ تجھے وجد میں لاؤں واپس

چاک پر کوزہ رکھوں ، خاک بناؤں واپس

دل میں اک غیر مناسب سی تمنا جاگی

تجھ کو ناراض کروں ، روز مناؤں واپس

وہ مرا نام نہ لے صرف پکارے تو سہی

کچھ بہانہ تو ملے دوڑ کے آؤں واپس

وقت کا ہاتھ پکڑنے کی شرارت کر کے

اپنے ماضی کی طرف بھاگتا جاؤں واپس

دیکھ میں گردشِ ایام اُٹھا لایا ہوں

اب بتا کون سے لمحے کو بُلاؤں واپس

یہ زمیں گھومتی رہتی ہے فقط ایک ہی سمت

تو جو کہہ دے تو اسے آج گھماؤں واپس

تھا ترا حکم سو جنت سے زمیں پر آیا

ہو چُکا تیرا تماشا، تو میں جاؤں واپس

نذر حسین ناز

یہ فضائے سازِ مطرب یہ ہجومِ تاج داراں


یہ فضائے سازِ مطرب یہ ہجومِ تاج داراں
چلو آؤ ہم بھی نکلیں بہ لباسِ سوگواراں

بہ فسونِ روئے لیلٰی بہ عذابِ جانِ مجنوں
وہی حسنِ دشت و در ہے بہ طوافِ جاں نثاراں 

غمِ کارواں کا آخر کوئی رُخ نہ اس سے چھوٹا 
وہ حدیث کہہ گئی ہے یہ ہوائے رہ گزاراں 

وہ تصورِ برہمن جو صنم کو ڈھالتا ہے 
رخِ نقش پر بھی آیا بہ سپاسِ نقشِ کاراں 

بہ خیالِ دوست آخر کوئی خوابِ ہم کناری 
کوئی خوابِ ہم کناری شبِ خوابِ بے قراراں 

سرِ کشتِ غیر کیا کیا یہ گھٹا برس رہی ہے 
کوئی ہم سے آ کے پوچھے اثرِ دعائے باراں 

وہ شکستِ خوابِ محفل وہ ہوا کے چار جھونکے 
لگی دل پہ تیر بن کر دمِ صبح یادِ یاراں​

عزیز حامد مدنی

شمع تنہا کی طرح صبح کے تارے جیسے


شمع تنہا کی طرح صبح کے تارے جیسے

شہر میں ایک ہی دو ہوں گے ہمارے جیسے

چھو گیا تھا کبھی اس جسم کو اک شعلۂ درد

آج تک خاک سے اڑتے ہیں شرارے جیسے

حوصلے دیتا ہے یہ ابر گریزاں کیا کیا

زندہ ہوں دشت میں ہم اس کے سہارے جیسے

سخت جاں ہم سا کوئی تم نے نہ دیکھا ہوگا

ہم نے قاتل کئی دیکھے ہیں تمہارے جیسے

دیدنی ہے مجھے سینے سے لگانا اس کا

اپنے شانوں سے کوئی بوجھ اتارے جیسے

اب جو چمکا ہے یہ خنجر تو خیال آتا ہے

تجھ کو دیکھا ہو کبھی نہر کنارے جیسے

اس کی آنکھیں ہیں کہ اک ڈوبنے والا انساں

دوسرے ڈوبنے والے کو پکارے جیسے

عرفان صدیقی

کچھ روشنی باقی تو ہے ہر چند کہ کم ہے


دربار میں اب سطوتِ شاہی کی علامت​

درباں کا عصا ہے کہ مصنّف کا قلم ہے​

آوارہ ہے پھر کوہِ ندا پر جو بشارت​

تمہیدِ مسرت ہے کہ طولِ شبِ غم ہے​

جس دھجی کو گلیوں میں لیے پھرتے ہیں طفلاں​

یہ میرا گریباں ہے کہ لشکر کا علَم ہے​

جس نور سے ہے شہر کی دیوار درخشاں​

یہ خونِ شہیداں ہےکہ زرخانۂ جم ہے​

حلقہ کیے بیٹھے رہو اک شمع کو یارو​

کچھ روشنی باقی تو ہے ہر چند کہ کم ہے

شبنم ہے کہ دھوکا ہے کہ جھرنا ہے کہ تم ہو۔


شبنم ہے کہ دھوکا ہے کہ جھرنا ہے کہ تم ہو۔
‏دل دشت میں اک پیاس تماشہ ہے کہ تم ہو۔

‏اک لفظ میں بھٹکا ہوا شاعر ہے کہ میں ہوں۔
‏اک غیب سے آیا ہوا مصرعہ ہے کہ تم ہو۔

‏اک دھوپ سے الجھا ہوا سایہ ہے کہ میں ہوں۔
‏اک شام کے ہونے کا بھروسہ ہے کہ تم ہو۔

احمد سلمان

اِک دُوجے نُوں تکدے تکدے


تُوں تے مَیں واں

دو پرچھاویں

وَکھرے وکھرے رُکّھاں دے

سُورج سَانوں جھٹ لئی میلے

قیدیاں وانگر۔۔۔

اِک دُوجے نُوں تکدے تکدے

ہولے ہولے وَکھ ہوجائیے

آ گلیاں دے ککھ ہوجائیے

اختر شمار

رہبرروں کے تیور بھی رہزنوں سے لگتے ہیں


کس طرف کو چلتی اب ہوا نہیں معلوم

ہاتھ اٹھا لیے سب نے اور دعا نہیں معلوم

موسموں کے چہروں سے زردیاں نہیں جاتی

پھول کیوں نہیں لگتے خوشنما نہیں معلوم

رہبرروں کے تیور بھی رہزنوں سے لگتے ہیں

کب کہاں پہ لٹ جاے قافلہ نہیں معلوم

سرو تو گئ رت میں قامتیں گنوا بیٹھے

قمریا ں ہوئ کیسے بے صدا نہیں معلوم

آج سب کو دعوی ہے اپنی اپنی چاہت کا

کون کس سے ہوتا کل جدا نہیں معلوم

منظرروں کی تبدیلی بس نظر میں رہتی ہے

ہم بھی ہوتے جاتے ہیں کیا سے کیا نہیں معلوم

ہم فراز شعروں سے دل کے زخم بھرتے ہیں

کیا کریں مسیحا کو جب دوا نہیں معلوم

احمد فراز

ye kya ki ek dil ko shakebā na kar sako


یہ کیا کہ اک جہاں کو کرو وقفِ اضطراب

یہ کیا کہ ایک دل کو شکیبا نہ کر سکو

ایسا نہ ہو یہ درد بنے دردِ لا دوا

ایسا نہ ہو کہ تم بھی مداوا نہ کر سکو

شاید تمھیں بھی چین نہ آئے مرے بغیر

شاید یہ بات تم بھی گوارا نہ کر سکو

کیا جانے پھر ستم بھی میسر ہو یا نہ ہو

کیا جانے یہ کرم بھی کرو یا نہ کر سکو

اللہ کرے جہاں کو مری یاد بھول جائے

اللہ کرے کہ تم کبھی ایسا نہ کر سکو

میرے سوا کسی کی نہ ہو تم کو جستجو

میرے سوا کسی کی تمنا نہ کر سکو

(صوفی غلام مصطفٰی تبسم)

ye kya ki ik jahan ko karo vagf-e-iztiräb

ye kya ki ek dil ko shakebā na kar sako

aisa na ho ye dard bane dard-e-la-dava

aisà na ho ki tum bhi mudavà na kar sako

shāyad tumhen bhi chain na aa.e mire baghair shayad ye baat tum bhi gavarà na kar sako

kya jaane phir sitam bhi mayassar ho ya na ho kya jaane ye karam bhi karo yá na kar sako

allah kare jahan ko miri yaad bhuul jaa.e

allah kare ki tum kabhi aisà na kar sako

mere siva kisi ki na ho tum ko justuju

mere sivà kisi ki tamanna na kar sako

گئے موسم میں جو کھلتے تھے گلابوں کی طرح


گئے موسم میں جو کھلتے تھے گلابوں کی طرح

دل پہ اتریں گے وہی خواب عذابوں کی طرح

راکھ کے ڈھیر پہ اب رات بسر کرنی ہے

جل چکے ہیں مرے خیمے، مرے خوابوں کی طرح

ساعتِ دید کے عارض ہیں گلابی اب تک

اولیں لمحوں کے گُلنار حجابوں کی طرح

وہ سمندر ہے تو پھر روح کو شاداب کرے

تشنگی کیوں مجھے دیتا ہے سرابوں کی طرح

غیر ممکن ہے ترے گھر کے گلابوں کا شمار

میرے رِستے ہوئے زخموں کے حسابوں کی طرح

یاد تو ہوں گی وہ باتیں تجھے اب بھی لیکن

شیلف میں رکھی ہوئی کتابوں کی طرح

کون جانے نئے سال میں تُو کس کو پڑھے

تیرا معیار بدلتا ہے نصابوں کی طرح

شوخ ہو جاتی ہے اب بھی تری آنکھوں کی چمک

گاہے گاہے، ترے دلچسپ جوابوں کی طرح

ہجر کی شب، مری تنہائی پہ دستک دے گی

تیری خوشبو، مرے کھوئے ہوئے خوابوں کی طرح

پروین شاکر

کیوں


جب حشر اسی زمیں پہ اُٹھائے گئے تو پھر

‏برپا یہیں پہ روزِ جزا کیوں نہیں ہوا

‏داماندگاں پہ تنگ ہوئی کیوں تری زمیں

‏دروازہ آسماں کا وا کیوں نہیں ہوا

‏آخر اسی خرابے میں زندہ ہیں اور سب

‏یوں خاک کوئی میرے سوا کیوں نہیں ہوا

جو کچھ ہوا وہ کیسے ہوا جانتا ہوں میں

‏جو کچھ نہیں ہوا وہ بتا کیوں نہیں ہوا

‏عرفان صدیقی

جس کو جانا ہے چلا جائے اجازت کیسی


اب وہ بے تابیِ جاں کا ہے کی‘ وحشت کیسی

اس سے بچھڑے ہیں تو حاصل ہے فراغت کیسی

جان، ہم کارِ محبت کا صلہ چاہتے تھے

دلِ سادہ کوئی مزدور ہے اجرت کیسی

عمر کیا چیز ہے احساسِ زیاں کے آگے

ایک ہی شب میں بدل جاتی ہے صورت کیسی

شمعِ خیمہ کوئی زنجیر نہیں ہم سفراں

جس کو جانا ہے چلا جائے اجازت کیسی

اس زمیں پر مرے یکتا ترے تمثال بہت

آئینہ خانے میں آیا ہے تو حیرت کیسی

دل اگر دل ہے تو دریا سے بڑا ہونا ہے

سر اگر سر ہے تو نیزوں سے شکایت کیسی

عرفان صدیقی

سراب


عنایت ایسی کہ سر پر تنی ہوئ ہے دھوپ
‏قناعت ایسی کہ ميں سائباں سمجھتا ہوں

‏سراب اتنے سہے ہیں کہ اب تو ابر کو بھی
‏کبھی دھواں، کبھی ریگِ رواں سمجھتا ہوں

مجھے بدلتے ہوئے ٹوٹنا نہیں پڑتا
‏کہ مَیں اشارۂ کُوزہ گراں سمجھتا ہوں

راہ ِ وفا میں ہر سو کانٹے دھوپ زیادہ سائے کم


راہ ِ وفا میں ہر سو کانٹے دھوپ زیادہ سائے کم
لیکن اس پر چلنے والے خوش ہی رہے پچھتائے کم

آہ یہ ظالم تلخ حقیقت جتنے بھی سفینے غرق ہوئے
اکثر اپنی موج میں ڈوبے طوفاں سے ٹکرائے کم

راہروی کا سب کو دعویٰ سب کو غرورِ عشق و وفا
راہِ وفا پر چلنے والے ہم نے لیکن پائے کم

دھیمی دھیمی چال سے ہم کو راہگذر طے کرنی ہے
ناز تھا جن کو تیز روی پر منزل تک وہ آئے کم

مجھ سے شکایت دنیا بھر کو شدتِ غم میں رونے کی
لیکن مجھ کو اس کا رونا آنکھ میں آنسو آئے کم

صرف یہی ہے ایک طریقہ دنیا میں خوش رہنے کا
دستِ تمنا کھینچے زیادہ دامنِ دل پھیلائے کم

صبر و سکوں کی دنیا لوٹے حسن دکھا کر جلووں کو
عشق مگر خود شب بھر تڑپے اوروں کو تڑ پائے کم

عشق ادب کا نام ہے کیفی یہ بھی ادب میں شامل ہے
جس کی محبت دل میں بسی ہو اس کی گلی میں جا ئے کم

محمد زکی کیفی

Bal-e-Jibril: 132 | Zauq O Shauq | Ecstasy | Allama Iqbal | Iqbaliyat |


قلب و نظر کی زندگی دشت میں صبح کا سماں

چشمہ آفتاب سے نور کی ندیاں رواں

حسن ازل کی ہے نمود، چاک ہے پردۂ وجود

دل کے لیے ہزار سود ایک نگاہ کا زیاں

سرخ و کبود بدلیاں چھوڑ گیا سحاب شب

کوہ اضم کو دے گیا رنگ برنگ طیلساں

گرد سے پاک ہے ہوا، برگ نخیل دھل گئے

ریگ نواح کاظمہ نرم ہے مثل پرنیاں

آگ بجھی ہوئی ادھر، ٹوٹی ہوئی طناب ادھر

کیا خبر اس مقام سے گزرے ہیں کتنے کارواں

آئی صدائے جبرئیل، تیرا مقام ہے یہی

اہل فراق کے لیے عیش دوام ہے یہی

کس سے کہوں کہ زہر ہے میرے لیے مے حیات

کہنہ ہے بزم کائنات، تازہ ہیں میرے واردات

کیا نہیں اور غزنوی کارگہ حیات میں

بیٹھے ہیں کب سے منتظر اہل حرم کے سومنات

ذکر عرب کے سوز میں، فکر عجم کے ساز میں

نے عربی مشاہدات، نے عجمی تخیلات

قافلۂ حجاز میں ایک حسین بھی نہیں

گرچہ ہے تاب دار ابھی گیسوئے دجلہ و فرات

عقل و دل و نگاہ کا مرشد اولیں ہے عشق

عشق نہ ہو تو شرع و دیں بت کدہ تصورات

صدق خلیل بھی ہے عشق، صبر حسین بھی ہے عشق

معرکۂ وجود میں بدر و حنین بھی ہے عشق

آیہ کائنات کا معنی دیر یاب تو

نکلے تری تلاش میں قافلہ ہائے رنگ و بو

جلوتیان مدرسہ کور نگاہ و مردہ ذوق

خلوتیان مے کدہ کم طلب و تہی کدو

میں کہ مری غزل میں ہے آتش رفتہ کا سراغ

میری تمام سرگزشت کھوئے ہوؤں کی جستجو

باد صبا کی موج سے نشوونمائے خار و خس

میرے نفس کی موج سے نشوونمائے آرزو

خون دل و جگر سے ہے میری نوا کی پرورش

ہے رگ ساز میں رواں صاحب ساز کا لہو

فرصت کشمکش مدہ ایں دل بے قرار را

یک دو شکن زیادہ کن گیسوے تابدار را

لوح بھی تو، قلم بھی تو، تیرا وجود الکتاب

گنبد آبگینہ رنگ تیرے محیط میں حباب

عالم آب و خاک میں تیرے ظہور سے فروغ

ذرہ ریگ کو دیا تو نے طلوع آفتاب

شوکت سنجر و سلیم تیرے جلال کی نمود

فقر جنید و بایزید تیرا جمال بے نقاب

شوق ترا اگر نہ ہو میری نماز کا امام

میرا قیام بھی حجاب، میرا سجود بھی حجاب

تیری نگاہ ناز سے دونوں مراد پا گئے

عقل غیاب و جستجو، عشق حضور و اضطراب

تیرہ و تار ہے جہاں گردش آفتاب سے

طبع زمانہ تازہ کر جلوۂ بے حجاب سے

تیری نظر میں ہیں تمام میرے گزشتہ روز و شب

مجھ کو خبر نہ تھی کہ ہے علم نخیل بے رطب

تازہ مرے ضمیر میں معرکۂ کہن ہوا

عشق تمام مصطفی، عقل تمام بولہب

گاہ بحیلہ می برد، گاہ بزور می کشد

عشق کی ابتدا عجب، عشق کی انتہا عجب

عالم سوز و ساز میں وصل سے بڑھ کے ہے فراق

وصل میں مرگ آرزو، ہجر میں لذت طلب

عین وصال میں مجھے حوصلۂ نظر نہ تھا

گرچہ بہانہ جو رہی میری نگاہ بے ادب

گرمی آرزو فراق، شورش ہائے و ہو فراق

موج کی جستجو فراق، قطرۂ کی آبرو فراق

Bal-e-Jibril: 132

Zauq-o-Shauq 

Ecstasy

Qalb-o-Nazar Ki Zindagi Dast Mein Subah Ka Saman

Chasma’ay Aftab Se Noor Ki Nadiyan Rawan

Husn-e-Azal Ki Hai Namood, Chaak Hai Parda’ay Wajood

Dil Ke Liye Hazar Sood, Aik Nigah Ka Ziyan

Surkh-o-Kabood Badaliyan Chor (Chodh) Gaya Sihab-e-Shab

Koh-e-Idm Ko De Gaya Rand Barang Teelsiyan

Gard Se Pak Hai Hawa, Barg-e-Nakheel Dhul Gaye

Raig-e-Nawah-e-Kazimah Naram Hai Misl-e-Parniyan

Air is clean of dust particles; leaves of datepalms have been washed;

The sand around Kazimah is soft like velvet.

Aag Bujhi Hui Idhar, Tooti Hui Tanab Udhar

Kya Khabar Iss Maqam Se Guzaray Hain Kitne Karwan

The remains of burnt‐out fire are observable here and a piece of tent‐rope there:

Who knows how many caravans have passed through this tract.

Ayi Sada’ay Jibreel, Tera Maqam Hai Yehi

Ahl-e-Faraak Ke Liye Ayesh-e-Dawam Hai Yehi

Kis Se Kahon Ke Zehar Hai Mere Liye May’ay Hiyat

Kuhna HAi Bazm-e-Kainat, Taza Hain Mere Wardaat

Kiya Nahin Aur Ghaznavi Kargah-e-Hiyat Mein

Baithe Hain Kab Se Muntazir Ahl-e-Harm Ke Soumanaat

Zikr-e-Arab Ke Souz Mein, Fikr-e-Ajam Ke Saaz Mein

Nay Arabi Mushahidaat, Nay Arbi Takhayyulaat

Kafla’ay Hijaz Mein Aik Hussain(R.A.) Bhi Nahin

Garcha Hai Tabdaar Abhi Gaisu’ay Dajla-o-Firat

Aqal-o-Dil-o-Nigah Ka Murshid-e-Awaleen Hai Ishq

Ishq Na Ho Tou Sharaa-o-Deen, Bott Khudda’ay Tasawwarat

Sidq-e-Khalil(A.S.) Bhi Hai Ishq, Sabr-e-Hussain(R.A.) Bhi Hai Ishq

Maarka’ay Wajood Mein Badar-o-Hunain Bhi Hai Ishq

Aaya’ay Kainat Ka Ma’ani-e-Deeryaab tu

Nikle Teri Talash Mein Kafla Ha’ay Rang-o-Bu

Jalwatiyan-e-Madrasah Kour Nigah-o-Murda Zauq

Khalwatiyan May Kuda Kam Talab-o-Tahi Kadu

Main Ke Meri Ghazal Mein Hain Aatish-e-Rafta Ka Suragh

Meri Tamam Sarguzhast, Khuay Huwon Ki Justajoo

Baad-e-Saba Ki Mouj Se Nashonuma’ay Khar-o-Khs

Mere Nafs Ki Mouj Se Nashonuma’ay Arzoo

Khoon-e-Dil-o-Jigar Se Hai Meri Nawa Ki Parwarish

Hai Rag-e-Saaz Mein Rawan Sahib-e-Saaz Ka Lahoo

Loh Bhi Tu Qalam Bhi Tu, Tera Wajood Al-Kitab

Gunbad-e-Abgina Rang tere Muheet Mein Habab

Alim-e-Aab-o-Khak Mein Tere Zahoor Se Faroug

Zarra’ay Raig Ko Diya Tu Ne Tulu-e-Aftab

Shoukat-e-Sanjar-o-Saleem Tere Jalal Ki Namood

Faqr-e-Junaid(R.A.)-o-Bayazeed(R.A.), Tera Jamal-e-Be-Naqab

Shauq Tera Agar Na Ho Meri Namaz Ka Imam

Mera Qiyam Bhi Hijab, Mera Sajood Bhi Hijab

Teri Nigah-e-Naaz Se Dono Murad Pa Gaye

Aqal Ghiyab-o-Justajoo, Ishq Huzoor-o-Iztarab

Teerah-o-Taar Hai Jahan Gardish-e-Aftab Se

Taba-e-Zamana Taza Kar Jalwa’ay Behijab Se

Teri Nazar Mein Hain Tamam Mere Guzishta Roz-o-Shab

Mujh Ko Khabar Na Thi Ke Hai Ilm-e-Nakheel-e-Be-Rutab

Taza Mere Zameer Mein Ma’arka’ay Kuhan Huwa

Ishq Tamam Mustafavi(S.A.W.), Aqal Tamam Bu-Lahab

Gah Bahila Mee Burad, Gah Bazor Mee Kusah

Ishq Ki Ibtada Ajab, Ishq Ki Intaha Ajab

Alim-e-Souz-o-Saaz Mein Wasal Se Barh Ke Hai Firaaq

Wasal Mein Marg-e-Arzoo, Hijar Mein Lazzat-e-Talab

Ayen-e-Wisal Mein Mujhay Hosla’ay Nazar Na Tha

Gharcha Bahana Joo Rahi Meri Nigah-e-BeAdab

Garmi-e-Arzoo Firaaq, Shorish-e-Ha’ay-o-Hu Firaaq

Mouj Ki Justajoo Firaaq, Qatre Ki Abroo Firaaq !

‏ ایک خواب سا مسلسل ہے


اس کائناتِ محبّت میں
‏ہم مثل شمس و قمر کے ہیں
‏ایک رابطہ مسلسل ہے،
‏ ایک فاصلہ مسلسل ہے

‏میں خود کو بیچ دوں پھر بھی،
‏ میں تجھکو پا نہیں سکتا
‏میں عام سا ہمیشہ ہوں،
‏ تو خاص سا مسلسل ہے

‏وقتِ وصال کی بھی
‏ ایک آرزو ادھوری ہے
‏ایک آس سی ہمیشہ ہے،
‏ ایک خواب سا مسلسل ہے

وہ کون چپ تھا؟


وہ کون چپ تھا؟

جو اپنی آنکھوں سے بے تحاشہ ہی بولتا تھا!

یہ کون چپ ہے؟

کہ جس کی آنکھوں میں رتجگوں کے عذاب ہیں بس۔۔۔۔

وہ کون چپ تھا؟

کہ جس کی آنکھیں جو بول اٹھتیں،

تو پھر جہاں کے سکوت سارے ہی ٹوٹ جاتے!

وہ کون ایسا گلِ صِفَت تھا؟

سبک خرامی تھی ختم جس پر

وہ ہولے ہولے سے اپنے نازک قدم جو رکھتا

تو رہگزر بھی مہک سی اٹھتی

وہ چاہتوں کی ردائیں اوڑھے جہاں ٹھہرتا

تو گھر بناتا محبتوں کے

جو گر نہ پاتے

نہ ٹوٹ سکتے تھے اس زمانے کی افراتفری کے موسموں میں

مگر زمانے گزر گئے ہیں

یہ کون چپ ہے؟

کہ جس کی چپ سے وجود گم ہے

اذیتوں میں

کوئی تو اس کو بتا کے آئے

کوئی تو اس کو پیام دے ناں

کوئی کہے ناں!

کوئی تو پوچھے!!!

وہ جس کے ہونے سے زندگی تھی

کہاں پہ گم ہے؟؟؟

یہاں پہ ہر سُو اداسیوں کا ہجوم کیوں ہے؟

فقط دکھوں کی لپیٹ کیوں ہے؟

زمیں فسادی بنی ہوئی ہے!

یہ آسماں بھی تو چڑچڑا سا ہوا ہے کیونکر؟

کوئی تو جا کر کہے ناں اس سے

نظر اٹھائے۔۔۔

سکوت توڑے

وہ جو بھی جیسا بھی ہے وہ بولے

وہ کون چپ تھا؟ 

جو اپنی آنکھوں سے بے تحاشہ ہی بولتا تھا!

یہ کون چپ ہے؟ 

کہ جس کی آنکھوں میں رتجگوں کے عذاب ہیں بس۔۔۔۔

تجھ سے بچھڑ کے ہم بھی مقدر کے ہو گئے


تجھ سے بچھڑ کے ہم بھی مقدر کے ہو گئے

پھر جو بھی در ملا ہے اسی در کے ہو گئے

پھر یوں ہوا کہ غیر کو دل سے لگا لیا

اندر وہ نفرتیں تھیں کہ باہر کے ہو گئے

کیا لوگ تھے کہ جان سے بڑھ کر عزیز تھے

اب دل سے محو نام بھی اکثر کے ہو گئے

اے یاد یار تجھ سے کریں کیا شکایتیں

اے درد ہجر ہم بھی تو پتھر کے ہو گئے

سمجھا رہے تھے مجھ کو سبھی ناصحان شہر

پھر رفتہ رفتہ خود اسی کافر کے ہو گئے

اب کے نہ انتظار کریں چارہ گر کہ ہم

اب کے گئے تو کوئے ستم گر کے ہو گئے

روتے ہو اک جزیرۂ جاں کو فرازؔ تم

دیکھو تو کتنے شہر سمندر کے ہو گئے

احمد فراز

عذابِ ہجر بڑھا لوں اگر اجازت ہو


عذابِ ہجر بڑھا لوں اگر اجازت ہو
اک اور زخم کھا لوں اگر اجازت ہو

تمہارے عارض و لب کی جدائی کے دن ہیں
میں جام منہ سے لگا لوں اگر اجازت ہو

تمہارا حسن تمہارے خیال کا چہرہ
شباہتوں میں چھپا لوں اگر اجازت ہو

تمہیں سے ہے مرے ہر خوابِ شوق کا رشتہ
اک اور خواب کما لوں اگر اجازت ہو

تھکا دیا ہے تمہارے فراق نے مجھ کو
کہیں میں خود کو گرا لوں اگر اجازت ہو

برائے نام بنامِ شبِ وصال یہاں
شبِ فراق منا لوں اگر اجازت ہو

جون ایلیا

تمہارا ہجر منا لوں اگر اجازت ہو


تمہارا ہجر منا لوں اگر اجازت ہو

میں دل کسی سے لگا لوں اگر اجازت ہو

تمہارے بعد بھلا کیا ہیں وعدہ و پیماں

بس اپنا وقت گنوا لوں اگر اجازت ہو

تمہارے ہجر کی شب ہائے کار میں جاناں

کوئی چراغ جلا لوں اگر اجازت ہو

جنوں وہی ہے وہی میں مگر ہے شہر نیا

یہاں بھی شور مچا لوں اگر اجازت ہو

کسے ہے خواہش مرہم گری مگر پھر بھی

میں اپنے زخم دکھا لوں اگر اجازت ہو

تمہاری یاد میں جینے کی آرزو ہے ابھی

کچھ اپنا حال سنبھالوں اگر اجازت ہو

جون ایلیا

دل سے پھر ہوگی مری بات کہ اے دل اے دل


دل سے پھر ہوگی مری بات کہ اے دل اے دل

‏یہ جو محبوب بنا ہے تری تنہائی کا

‏یہ تو مہماں ہے گھڑی بھر کا، چلا جائے گا

‏اس سے کب تیری مصیبت کا مداوا ہوگا

‏مشتعل ہو کے ابھی اٹھیں گے وحشی سائے

‏یہ چلا جائے گا، رہ جائیں گے باقی سائے

رات بھر جن سے ترا خون خرابا ہوگا

‏جنگ ٹھہری ہے کوئی کھیل نہیں ہے اے دل

‏دشمنِ جاں ہیں سبھی، سارے کے سارے قاتل

‏یہ کڑی رات بھی ، یہ سائے بھی ، تنہائی بھی

‏درد اور جنگ میں کچھ میل نہیں ہے اے دل

‏لاؤ سلگاؤ کوئی جوشِ غضب کا انگار

طیش کی آتشِ جرار کہاں ہے لاؤ

‏وہ دہکتا ہوا گلزار کہاں ہے لاؤ

‏جس میں گرمی بھی ہے ،

‏ حرکت بھی توانائی بھی

‏ہو نہ ہو اپنے قبیلے کا بھی کوئی لشکر

‏منتظر ہوگا اندھیرے کی فصیلوں کے اُدھر

‏ان کو شعلوں‌کے رجز اپنا پتا تو دیں‌گے

‏خیر، ہم تک وہ نہ پہنچیں بھی،

‏ صدا تو دیں گے

دور کتنی ہے ابھی صبح، بتا تو دیں گے!

‏فیض

یوں بظاہر تو پسِ پشت نہ ڈالو گے ہمیں


یوں بظاہر تو پسِ پشت نہ ڈالو گے ہمیں

جانتے ہیں بڑی عزت سے نکالو گے ہمیں

اتنے ظالم نہ بنو کچھ تو مروت سیکھو

تم پہ مرتے ہیں تو کیا مار ہی ڈالو گے ہمیں

تم نہیں آئے نہیں آئے مگر سوچا تھا

ہم اگر روٹھ بھی جائیں تو منا لو گے ہمیں

ہم تِرے سامنے آئیں گے نگینہ بن کر

پہلے یہ وعدہ کرو پھر سےچرا لو گے ہمیں

تم بھی تھے بزم میں یہ سوچ کے ہم نے پی لی

ہم اگر مست ہوئے بھی تو سنبھالو گے ہمیں

قابلِ رحم بنے پھرتے ہیں اس آس پہ ہم

اپنے سینے سے کسی روز لگا لو گے ہمیں

ہم بڑی قیمتی مٹی سے بنائے گئے ہیں

خود کو ہم بیچنا چاہیں گے تو کیا لو گے ہمیں

ہم بھی کچھ اپنی تمنائیں سنائیں گے تمہیں

جب تم اپنی یہ تمنائیں سنا لو گے ہمیں

ہم نہ بھولیں گے تمہیں جتنی بھی کوشش کر لو

بھولنے کے لیے ہر بار خیالو گے ہمیں

ادریس آزاد

وہیں لگی ہے جو نازک مقام تھے دل کے


گرانئ شب ہجراں دو چند کیا کرتے

علاج درد ترے دردمند کیا کرتے

وہیں لگی ہے جو نازک مقام تھے دل کے

یہ فرق دست عدو کے گزند کیا کرتے

جگہ جگہ پہ تھے ناصح تو کو بہ کو دلبر

انہیں پسند انہیں ناپسند کیا کرتے

ہمیں نے روک لیا پنجۂ جنوں ورنہ

ہمیں اسیر یہ کوتہ کمند کیا کرتے

جنہیں خبر تھی کہ شرط نواگری کیا ہے

وہ خوش نوا گلۂ قید و بند کیا کرتے

گلوئے عشق کو دار و رسن پہنچ نہ سکے

تو لوٹ آئے ترے سر بلند کیا کرتے

دُکـــھ


‏کوئی تردید کا صَدمہ ہے ، نہ اَثبات کا دُکھ
‏جب بچھڑنا ہی مقدر ہے تو ، کس بات کا دُکھ؟

‏میــــــز پر چائــــــے کا اک بھاپ اُڑاتا ہوا کپ
‏اور ساتھ رَکھا ہے نہ ہونے والی ملاقات کا دُکـــھ

کس کی تحویل میں تھے کس کے حوالے ہوئے لوگ


کس کی تحویل میں تھے کس کے حوالے ہوئے لوگ
چشم گریہ میں رہے دل سے نکالے ہوئے لوگ

کب سے راہوں میں تری گرد بنے بیٹھے ہیں
تجھ سے ملنے کے لیے وقت کو ٹالے ہوئے لوگ

کہیں آنکھوں سے چھلکنے نہیں دیتے تجھ کو
کیسے پھرتے ہیں ترے خواب سنبھالے ہوئے لوگ

دامن صبح میں گرتے ہوئے تاروں کی طرح
جل رہے ہیں تری قربت کے اجالے ہوئے لوگ

یا تجھے رکھتے ہیں یا پھر تری خواہش دل میں
ایسے دنیا میں کہاں چاہنے والے ہوئے لوگ

kis kī tahvīl meñ the kis ke havāle hue log
chashm-e-girya meñ rahe dil se nikāle hue log

kab se rāhoñ meñ tirī gard bane baiThe haiñ
tujh se milne ke liye vaqt ko Taale hue log

kahīñ āñkhoñ se chhalakne nahīñ dete tujh ko
kaise phirte haiñ tire ḳhvāb sambhāle hue log

dāman-e-sub.h meñ girte hue tāroñ kī tarah
jal rahe haiñ tirī qurbat ke ujāle hue log

yā tujhe rakhte haiñ yā phir tirī ḳhvāhish dil meñ
aise duniyā meñ kahāñ chāhne vaale hue log

Saleem Kausar

ادھر تقاضے ہیں مصلحت کے، ادھر تقاضائے دردِ دل ہے


ستم کی رسمیں بہت تھیں لیکن، نہ تھی تری انجمن سے پہلے

سزا، خطائے نظر سے پہلے، عتاب جرمِ سخن سے پہلے

جو چل سکو تو چلو کہ راہِ وفا بہت مختصر ہوئی ہے

مقام ہے اب کوئی نہ منزل، فرازِ دار و رسن سے پہلے

نہیں رہی اب جنوں کی زنجیر پر وہ پہلی اجارہ داری

گرفت کرتے ہیں کرنے والے خرد پہ دیوانہ پن سے پہلے

کرے کوئی تیغ کا نظارہ، اب اُن کو یہ بھی نہیں گوارا

بضد ہے قاتل کہ جانِ بسمل فگار ہو جسم و تن سے پہلے

غرورِ سرو و سمن سے کہہ دو کہ پھر وہی تاجدار ہوں گے

جو خار و خس والیء چمن تھے عروجِ سرو و سمن سے پہلے

ادھر تقاضے ہیں مصلحت کے، ادھر تقاضائے دردِ دل ہے

زباں سنبھالیں کہ دل سنبھالیں ، اسیر ذکر وطن سے پہلے

فیض ا حمد فیض

وحشتیں بڑھتی گئیں ہجر کے آزار کے ساتھ


وحشتیں بڑھتی گئیں ہجر کے آزار کے ساتھ

اب تو ہم بات بھی کرتے نہیں غم خوار کے ساتھ

ہم نے اک عمر بسر کی ہے غم یار کے ساتھ

میرؔ دو دن نہ جئے ہجر کے آزار کے ساتھ

اب تو ہم گھر سے نکلتے ہیں تو رکھ دیتے ہیں

طاق پر عزت سادات بھی دستار کے ساتھ

اس قدر خوف ہے اب شہر کی گلیوں میں کہ لوگ

چاپ سنتے ہیں تو لگ جاتے ہیں دیوار کے ساتھ

ایک تو خواب لیے پھرتے ہو گلیوں گلیوں

اس پہ تکرار بھی کرتے ہو خریدار کے ساتھ

شہر کا شہر ہی ناصح ہو تو کیا کیجئے گا

ورنہ ہم رند تو بھڑ جاتے ہیں دو چار کے ساتھ

ہم کو اس شہر میں تعمیر کا سودا ہے جہاں

لوگ معمار کو چن دیتے ہیں دیوار کے ساتھ

جو شرف ہم کو ملا کوچۂ جاناں سے فرازؔ

سوئے مقتل بھی گئے ہیں اسی پندار کے ساتھ

‏احمد فراز

daraḳht-e-jāñ par azāb-rut thī na barg jaage na phuul aa.e


daraḳht-e-jāñ par azāb-rut thī na barg jaage na phuul aa.e
bahār-vādī se jitne panchhī idhar ko aa.e malūl aa.e

nashāt-e-manzil nahīñ to un ko koī sā ajr-e-safar hī de do
vo rah-navard-e-rah-e-junūñ jo pahan ke rāhoñ kī dhuul aa.e

vo saarī ḳhushiyāñ jo us ne chāhīñ uThā ke jholī meñ apnī rakh liiñ
hamāre hisse meñ uzr aa.e javāz aa.e usuul aa.e

ab aise qisse se fā.eda kyā ki kaun kitnā vafā-nigar thā
jab us kī mahfil se aa ga.e aur saarī bāteñ hī bhuul aa.e

vafā kī nagrī luTī to us ke asāsoñ kā bhī hisāb Thahrā
kisī ke hisse meñ zaḳhm aa.e kisī ke hisse meñ phuul aa.e

ba-nām-e-fasl-e-bahār ‘āzar’ vo zard patte hī mo’tabar the
jo hañs ke rizq-e-ḳhizāñ hue haiñ jo sabz shāḳhoñ pe jhuul aa.e

Azaz Ahmad Azir

درخت جاں پر عذاب رت تھی نہ برگ جاگے نہ پھول آئے
بہار وادی سے جتنے پنچھی ادھر کو آئے ملول آئے

نشاط منزل نہیں تو ان کو کوئی سا اجر سفر ہی دے دو
وہ رہ نورد رہ جنوں جو پہن کے راہوں کی دھول آئے

وہ ساری خوشیاں جو اس نے چاہیں اٹھا کے جھولی میں اپنی رکھ لیں
ہمارے حصے میں عذر آئے جواز آئے اصول آئے

اب ایسے قصے سے فائدہ کیا کہ کون کتنا وفا نگر تھا
جب اس کی محفل سے آ گئے اور ساری باتیں ہی بھول آئے

وفا کی نگری لٹی تو اس کے اثاثوں کا بھی حساب ٹھہرا
کسی کے حصے میں زخم آئے کسی کے حصے میں پھول آئے

بنام فصل بہار آذرؔ وہ زرد پتے ہی معتبر تھے
جو ہنس کے رزق خزاں ہوئے ہیں جو سبز شاخوں پہ جھول آئے

کیا کریں


مری تری نگاہ میں

جو لاکھ انتظار ہیں

جو میرے تیرے تن بدن میں

لاکھ دل فگار ہیں

جو میری تیری انگلیوں کی بے حسی سے

سب قلم نزار ہیں

جو میرے تیرے شہر کی

ہر اک گلی میں

میرے تیرے نقش پا کے بے نشاں مزار ہیں

جو میری تیری رات کے

ستارے زخم زخم ہیں

جو میری تیری صبح کے

گلاب چاک چاک ہیں

یہ زخم سارے بے دوا

یہ چاک سارے بے رفو

کسی پہ راکھ چاند کی

کسی پہ اوس کا لہو

یہ ہے بھی یا نہیں، بتا

یہ ہے، کہ محض جال ہے

مرے تمہارے عنکبوت وہم کا بنا ہوا

جو ہے تو اس کا کیا کریں

نہیں ہے تو بھی کیا کریں

بتا، بتا،

بتا، بتا

فیض احمد فیض

شکست خواب کا ہمیں ملال کیوں نہیں رہا


شکست خواب کا ہمیں ملال کیوں نہیں رہا

بچھڑ گئے تو پھر ترا خیال کیوں نہیں رہا

اگر یہ عشق ہے تو پھر وہ شدتیں کہاں گئیں

اگر یہ وصل ہے تو پھر محال کیوں نہیں رہا

وہ زلف زلف رات کیوں بکھر بکھر کے رہ گئی

وہ خواب خواب سلسلہ بحال کیوں نہیں رہا

وہ سایہ جو بجھا تو کیا بدن بھی ساتھ بجھ گیا

نظر کو تیرگی کا اب ملال کیوں نہیں رہا

وہ دور جس میں آگہی کے در کھلے تھے کیا ہوا

زوال تھا تو عمر بھر زوال کیوں نہیں رہا

کہیں سے نقش بجھ گئے کہیں سے رنگ اڑ گئے

یہ دل ترے خیال کو سنبھال کیوں نہیں رہا

عرفان ستار

‎علم نے مجھ سے کہا عشق ہے دیوانہ پن


علم نے مجھ سے کہا عشق ہے دیوانہ پن
عشق نے مجھ سے کہا علم ہے تخمین و ظن

بندہ تخمین و ظن! کرم کتابی نہ بن
عشق سراپا حضور، علم سراپا حجاب!

عشق کی گرمی سے ہے معرکہء کائنات
علم مقام صفات، عشق تماشائے ذات

عشق سکون و ثبات، عشق حیات و ممات
علم ہے پیدا سوال، عشق ہے پنہاں جواب!

عشق کے ہیں معجزات سلطنت و فقر و دیں
عشق کے ادنی غلام صاحب تاج و نگیں

عشق مکان و مکیں، عشق زمان و زمیں
عشق سراپا یقیں، اور یقیں فتح باب!

شرع محبت میں ہے عشرت منزل حرام
شورش طوفاں حلال، لذت ساحل حرام

عشق پہ بجلی حلال، عشق پہ حاصل حرام
علم ہے ابن الکتاب، عشق ہے ام الکتاب!

Knowledge said to me, love is madness
Love said to me, knowledge is quantification

O skeptic man, do not be a bookworm
Love is Presence in entirety, Knowledge nothing but a Veil.

The universe moves by the warmth of Love
Knowledge is a station of Attributes, Love a vision of the Essence

Love is peace and permanence, Love is Life and Death
Of knowledge arises question, in Love the answer is hidden

Kingdom, poverty and faith are miracles of Love
The owners of crowns and jewels are slaves of Love

Love is the Space and the Creation, Love is Time and Earth
Love is conviction in its entirety, and conviction opens the door

The reaching of destination is forbidden in the rules of Love
Fighting the storms is permitted, but the comfort of the shore is forbidden

Lightning is permitted on love, acquisition is forbidden
Knowledge is the child of the book, Love is the mother of the book

یاد آتے ہی رہے دل سے نکالے ہوئے لوگ


یاد آتے ہی رہے دل سے نکالے ہوئے لوگ

کس کی میراث تھے اور کس کے حوالے ہوئے لوگ

شہر آشوب میں آنسو کی طرح پھرتے ہیں

ہائے وہ لوگ کسی خواب کے پالے ہوئے لوگ

اول اول تو ہماری ہی طرح لگتے تھے

منصب عشق پہ آئے تو نرالے ہوئے لوگ

جانے کس سمت انہیں تلخیٔ دوراں لے جائے

اپنی پہچان کو نیزوں پہ اچھالے ہوئے لوگ

ایک رت آئی کہ خوشبو کی طرح پھیل گئے

اور پھر وقت کی موجوں کے حوالے ہوئے لوگ

فرحت زاہد

Aey reyg’zaar-e-hasti..!!!


Aey reyg’zaar-e-hasti,

be’aas-o-be’basi ka tu dasht-e-be’kinaara

tu agar bura na maaney, tujhey ho agar gawaara

meri aarzu ki laasheiN, merey hosloN ki qabreiN

meiN kahaN pe ja ke dhooNdooN, mujhey kuch to dey ishaara!

Aey reyg’zaar-e-hasti,

teri dastaras meiN jo bhi rastoN ko apney bhooley

tu rakht-e-safar ko lootey, simtoN sey unki kheiley

ik khaak be-zarrar hey aadam ki keemya meiN

teri mashq-e-kusht-o-khooN ko kab tak bhala ye jheley!

Aey reyg’zaar-e-hasti,

ye fishaar-e-bad’tameezi, ye khumaar be-ta’haasha

tu ney apni wussatoN ko kya isi leeye taraasha!

terey roz-o-shab ke qissey detey heiN ye khulaasa

har shab naey shagoofey, har din naya tamaasha

sabhī gunāh dhul ga.e sazā hī aur ho ga.ī


sabhī gunāh dhul ga.e sazā hī aur ho ga.ī
mire vajūd par tirī gavāhī aur ho ga.ī

rafū-garān-e-shahr bhī kamāl log the magar
sitāra-sāz haath meñ qabā hī aur ho ga.ī

bahut se log shaam tak kivāḌ khol kar rahe
faqīr-e-shahr kī magar sadā hī aur ho ga.ī

añdhere meñ the jab talak zamāna sāz-gār thā
charāġh kyā jalā diyā havā hī aur ho ga.ī

bahut sambhal ke chalne vaalī thī par ab ke baar to
vo gul khile ki shoḳhī-e-sabā hī aur ho ga.ī

na jaane dushmanoñ kī kaun baat yaad aa ga.ī
laboñ tak aate aate bad-duā hī aur ho ga.ī

ye mere haath kī lakīreñ khul rahī thiiñ yā ki ḳhud
shagun kī raat ḳhushbū-e-hinā hī aur ho ga.ī

zarā sī kargasoñ ko āb-o-dāna kī jo shah milī
uqaab se ḳhitāb kī adā hī aur ho ga.ī

Parveen Shakir

سبھی گناہ دھل گئے سزا ہی اور ہو گئی
مرے وجود پر تری گواہی اور ہو گئی

رفو گران شہر بھی کمال لوگ تھے مگر
ستارہ ساز ہاتھ میں قبا ہی اور ہو گئی

بہت سے لوگ شام تک کواڑ کھول کر رہے
فقیر شہر کی مگر صدا ہی اور ہو گئی

اندھیرے میں تھے جب تلک زمانہ ساز گار تھا
چراغ کیا جلا دیا ہوا ہی اور ہو گئی

بہت سنبھل کے چلنے والی تھی پر اب کے بار تو
وہ گل کھلے کہ شوخیٔ صبا ہی اور ہو گئی

نہ جانے دشمنوں کی کون بات یاد آ گئی
لبوں تک آتے آتے بد دعا ہی اور ہو گئی

یہ میرے ہاتھ کی لکیریں کھل رہی تھیں یا کہ خود
شگن کی رات خوشبوئے حنا ہی اور ہو گئی

ذرا سی کرگسوں کو آب و دانہ کی جو شہہ ملی
عقاب سے خطاب کی ادا ہی اور ہو گئی

Yeh janoon-e- manzil-e -ishq hai


Tujhe Kya Khabar Mere Haal Ki
Mere Dard Mere Malaal Ki

Yeh Mere Khayal Ka Silsila
Kisi Yaad Se Hai Milaa Hua

Usse Dekhna Usse Sochna
Meri Zindgi Ka Hai Faisla

Yeh Usi Ki Palkon Ke Saaye Hein
Meri Rooh Mein jo Utar Gaye

Yeh janoon-e- manzil-ee ishq hai
Jo Chale Tou Jaan Se Guzar Gaye

Mujhay is Muqaam Pay Chorna
Hai yeh Bewafai Ki inteha

Yeh Kafs ho jaisay Khuli Fiza
Yehi Sukh ka sans mein loon sada

Jinhain teri deed ki piyas thi
wo katoray nainoon say bhar gaye

Yeh janoon-e- manzil-e -ishq hai
jo chlay to jaan say guzar gayee

hum agar ishq na karte to hukumat karte..


hum ne har dukh ko mohabat ka tasalsul samjha..
hum koi tum they k dunya se shikayat karte..

ham ne sokhi hui shakhon pe lahu chirka tha..
phool agar ab b na khilte to khasara karte..

hum agar chup hain to is ko b ganimat jano..
hum agar sabar na kartay to qayamat kartay..

hum ko mal0om hai dushman k sabhi thikan0 ka pata..
shareek e jurm na hotay to mokhbari kartay..

ki muhabat to siyasat kay chalan chor diye..
hum agar ishq na karte to hukumat karte..

‏میں وہ سکوت ہوں


‏میں وہ سکوت ہوں جو تیرے کام کا نہیں

تو ایسا شور ھے جو میں مچا نہیں سکتا

ضمیر طالب

Hum dekhenge


Hum dekhenge
Lazim hai ke hum bhi dekhenge
Woh din ke jis ka waada hai
Jo loh-e-azl pe likha hai
Hum dekhenge

Jab zulm-o-sitam ke koh-e-garaan
Rui ki tarah ud jayenge
Hum mehkumoon ke paun tale
Yeh dharti dhad dhad dhadkagi
Aur ehl-e-hukum ke sar upar
Jab bijli kad kad kadkegi
Hum dekhenge

Jab arz-e-khuda ke Kabe se
Sab but uthwaye jayenge
Hum ahl-e-safa mardood-e-haram
Masnad pe bithaye jayenge
Sab taaj uchale jayenge
Sab takht giraye jayenga
Bas naam rahega Allah ka
Jo ghayab bhi hai hazir bhi
Jo nazir bhi hai manzar bhi
Uthega nalhaq ka naara
Jomain bhi hoon aur tum bhi ho
Aur raaj karegi khalq-e-khuda
Jo main bhi hoon aur tum bhi ho
Hum dekhenge
Lazim hai ke hum bhi dekhenge
Hum dekhenge

Poet : Faiz Ahmed Faiz

Singer: Iqbal Bano

آدمی


مجھ کو محصور کیا ہے مری آگاہی نے

میں نہ آفاق کا پابند، نہ دیواروں کا

میں نہ شبنم کا پرستار، نہ انگاروں کا

اہلِ ایقان کا حامی نہ گنہگاروں کا

نہ خلاؤں کا طلب گار، نہ سیّاروں کا

زندگی دھوپ کا میدان بنی بیٹھی ہے

اپنا سایہ بھی گریزاں، ترا داماں بھی خفا

رات کا روپ بھی بے زار، چراغاں بھی خفا

صبحِ یاراں بھی خفا، شامِ غریباں بھی خفا

دُزدِ ایماں بھی خفا، اور نگہباں بھی خفا

خود کو دیکھا ہے تو اس شکل سے خوف آتا ہے

ایک مبہم سی صدا گنبدِ افلاک میں ہے

تارِ بے مایہ کسی دامنِ صد چاک میں ہے

ایک چھوٹی سی کرن مہر کے ادراک میں ہے

جاگ، اے روح کی عظمت کہ مری خاک میں ہے

مصطفیٰ زیدی

رخصت ہوا تو آنکھ ملا کر نہیں گیا


رخصت ہوا تو آنکھ ملا کر نہیں گیا

وہ کیوں گیا ہے یہ بھی بتا کر نہیں گیا

وہ یوں گیا کہ بادِ صبا یاد آگئی

احساس تک بھی ہم کو دلا کر نہیں گیا

یوں لگ رہا ہے جیسے ابھی لوٹ آئے گا

جاتے ہوئے چراغ بجھا کر نہیں گیا

بس اک لکیر کھینچ گیا درمیان میں

دیوار راستے میں بنا کر نہیں گیا

شاید وہ مل ہی جائے مگر جستجو ہے شرط

وہ اپنے نقشِ پا تو مٹا کر نہیں گیا

گھر میں ہے آج تک وہی خوشبو بسی ہوئی

لگتا ہے یوں کہ جیسے وہ آکر نہیں گیا

تب تک تو پھول جیسی ہی تازہ تھی اس کی یاد

جب تک وہ پتیوں کو جدا کر نہیں گیا

رہنے دیا نہ اس نے کسی کام کا مجھے

اور خاک میں بھی مجھ کو ملا کر نہیں گیا

ویسی ہی بے طلب ہے ابھی میری زندگی

وہ خار وخس میں آگ لگا کر نہیں گیا

شہزاد یہ گلہ ہی رہا اس کی ذات سے

جاتے ہوئے وہ کوئی گلہ کر نہیں گیا

tujhe kyā ḳhabar mire be-ḳhabar mirā silsila koī aur hai


tujhe kyā ḳhabar mire be-ḳhabar mirā silsila koī aur hai

jo mujhī ko mujh se baham kare vo gurez-pā koī aur hai

mire mausamoñ ke bhī taur the mire barg-o-bār hī aur the

magar ab ravish hai alag koī magar ab havā koī aur hai

yahī shahr shahr-e-qarār hai to dil-e-shikasta kī ḳhair ho

mirī aas hai kisī aur se mujhe pūchhtā koī aur hai

ye vo mājrā-e-firāq hai jo mohabbatoñ se na khul sakā

ki mohabbatoñ hī ke darmiyāñ sabab-e-jafā koī aur hai

haiñ mohabbatoñ kī amānateñ yahī hijrateñ yahī qurbateñ

diye bām-o-dar kisī aur ne to rahā basā koī aur hai

ye fazā ke rañg khule khule isī pesh-o-pas ke haiñ silsile

abhī ḳhush-navā koī aur thā abhī par-kushā koī aur hai

dil-e-zūd-ranj na kar gila kisī garm o sard raqīb kā

ruḳh-e-nā-sazā to hai rū-ba-rū pas-e-nā-sazā koī aur hai

bahut aa.e hamdam o chāra-gar jo numūd-o-nām ke ho ga.e

jo zavāl-e-ġham kā bhī ġham kare vo ḳhush-āshnā koī aur hai

ye ‘nasīr’ shām-e-supurdagī kī udaas udaas sī raushnī

ba-kanār-e-gul zarā dekhnā ye tumhi ho yā koī aur hai

Naseer Turabi

hath ke lakeeeron mein, kya talash karty ho? 


hath ke lakeeeron mein, kya talash karty ho? 
in fazool baaton mein, kis liay ulajhty ho? 
jis ko milna hota hy 
bin lakeer dekhy he 
zindagi k raston par 
sath sath chalta hy 
phir kahan….bicharta hy? 
jo nahi muqaddar mein 
kab hamein wo milta hy? 
hath ke lakeeron mein 
kya talash karty ho? 
(Contributed by Amaavas)

Wo na aain tau


wo na aain tau hawa bhi nahin aaya karti

uski khushboo bhi akeeli nahin aaya karti

hum tau aanso hain hamain khaak main mil jana hai

mayyatoon ke liye doli nahin aaya karti

bistar-e-hijr pe soya nahin jata aksar

neend aati tau hai, gehri nahin aaya karti

al-al-eilaan Kiya karta hoon sachi baatain

chor darwazay se aandhi nahin aaya karti

sirf rangoon se kabhi rus nahin tapka karta

kaghzi phool pe kabhi titli nahin aaya karti

ishq karte ho tau aaloda-e-shikwa kiyun ho

shehd ke lehjay main talkhi nahin aaya karti

maut ne Yaad Kiya hai ke muzaffar us ne

apni marzi se tau hichki nahin aaya karti

Muzzaffar Warsi

بات یہ تیرے سوا اور بھلا کس سے کہیں


بات یہ تیرے سوا اور بھلا کس سے کہیں

تو جفا کار ہوا ہے ، تو وفا کس سے کریں

آئینہ سامنے رکھیں تو نظر تو آئے

تجھ سے جو بات چھپانی ہو کہا کس سے کریں

زلف سے،چشم ولب و رخ سے کہ تیرے غم سے

بات یہ ہے کہ دل و جاں کو رہا کس سے کریں

تو نہیں ہے تو پھر اے حسنِ سخن !ساز بتا

اس بھرے شہر میں ہم جیسے ملا کس سے کریں

ہاتھ الجھے ہوئے ریشم میں پھنسا بیٹھے ہیں

اب بتا! کون سے دھاگے کو جدا کس سے کریں

تو نے اپنی سی کرنی تھی سو کر لی خاور

مسئلہ یہ ہے کہ ہم اس کا گلہ کس سے کریں

 

ایوب خاور